خوش آمدید

جو سن سکو تو میری داستان ختم نہ ہو
نہ سن سکو تو کوئی حدِ اختصار نہیں

Wednesday 23 June 2010

بڑوں کی کہانیاں---ایک تھا بادشاہ

پیارے بڑو! ایک تھا بادشاہ، ویسے تو ہمارا تمھارا خدا باداشاہ مگر اس ملک پہ خدا کے بعد اسی بادشاہ کی حکومت تھی۔ بادشاہ بڑا ہی عوام پرور اور نیکو کار تھا۔اس دور کے گزیٹڈ آفیسرز کی ڈائریوں کے مطابق اس کی حکومت میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک امن و امان کا دور دورہ تھا۔ امراء ایک سرے سے دوسرے تک سونا اچھالتے چلے جاتے۔ سرکاری ٹی وی کے اہلکار سارا وقت اس کے مخالفین کی منتیں کرتے کہ حضرت انٹرویو سے سرفراز فرمائیں مگر عوام کے ڈر سے کوئی سامنے نہ آتا کہ عوام اسے کئ بار استصوابِ راۓ کے ذریعے سو فیصد ووٹوں کے ساتھ منتخب کر چکے تھے۔ سو سرکاری ٹی وی کو مجبوراؐ روزانہ رات نو سے دس کے درمیان اس کے کامیاب دوروں کی کوریج کرنی پڑتی۔

بڑو! بادشاہ اتنا ہردلعزیز تھا کہ بارہ مہینے کسی نہ کسی ملک کا نمائیندہ دورے کی دعوت کے ساتھ حاضر رہتا۔ دینا کا کوئی ملک ایسا نہ تھا جہاں سرکاری مہمان گاہ کی کتاب میں اس کے دستخط نہ ہوں۔ بادشاہ کو جہانگیری کا اس قدر سودا تھا کہ چھٹیاں بھی بیرونِ ملک گزارتا۔ مگر بڑو وہ اس قدر فرض شناس تھا کہ چھٹیوں میں بھی فرینڈذ آف ملکِ خداداد کے اجلاس منعقد کرتا رہتا جن کے نتیجے میں بیرونِ ملک سے سرمایہ آندھی کی طرح ملکِ خداداد کا رخ کرتا۔ اس کا چہرہ اتنا پر نور تھا کہ اس پہ نظر پڑتے ہی اس دور کے عالمی مالیاتی ادارے سپردم بتو کہتے ہوۓ اپنے خزانوں کے منہ کھول کے کھڑے ہو جاتے، مگر چونکہ دنیا کے باقی ملک اس سے جلتے تھے سو مینگیاں اتنی ہو جاتیں کہ مینگنیوں میں دودھ کا گمان ہونے لگتا۔ مگر عوام پھر بھی اس سے اتنی محبت کرتے تھے کہ خود کو گروی رکھوا کر بھی قرضے کی نئ قسط جاری کروانے پہ ہمہ وقت تیار رہتے۔

اچھے بڑو، اس بادشاہ کے دور میں ملک اتنا خوشحال تھا کہ اس بادشاہ نے اپنے وزراء کے مشیروں کو بھی مرسڈیز دے رکھی تھیں۔ سرکاری افسران تک کو گاڑیاں نوکری کے بعد بھی کوڑیوں کے بھاؤ دستیاب تھیں۔ بادشاہ بڑا مردم شناس تھا اس نے چن چن کے سارے ملک سے رتن اکٹھے کر رکھے تھے۔ اکبر بادشاہ تو رتنوں کے معاملہ میں تہی دامن ہی رہا کہ فقط نو جمع کر سکا مگر ہمارے بادشاہ کی گدڑی تو ماشا اللہ لعل کا اتوار بازار تھا۔اس جوہر شناس کے رتنوں میں ہر ذرہ اپنی جگہ آفتاب تھا۔ بادشاہ چونکہ عالی نسبی پہ پختہ یقین رکھتا تھا اسی لئے سرکاری عہدے صرف اشرافیہ کو ہی دیتا۔ بادشاہ کا ماننا تھا موری کی اینٹ چوبارے پہ پہنچ کر بھی بو ہی مارتی ہے سو اسے موری تک ہی محدود رکھنا چاہئے۔ بادشاہ کے اسی اصول کی وجہ سے مملکت میں مثالی گڈ گورننس قائم تھی

بڑو، بادشاہ دین پہ مکمل دھیان دیتا اس نے اس دور کے کئ علما و ممشائخ سے اچھے تعلقات قائم کر رکھے تھے، اکثر انہیں تحفے بھجواتا رہتا اس کا ماننا تھا کہ اس طرح دین روز افزوں ترقی کر رہا ہے۔ مملکت کے طول وعرض میں کئ سرکاری مدارس ایسے بھی تھے جہاں اس کا نام جمعہ کے خطبہ میں آیا مگر چونکہ بادشاہ نمود و نمائش سے کوسوں دور بھاگتا تھا اسی لئے اس نے یہ سلسلہ پھیلنے نہیں دیا اس کا یہ بھی خیال تھا کہ اس طرح مٹھی بھر بدخواہوں کا بھی بدعا کے مسلمہ اصولوں کے تحت خاتمہ بالخیر ہو سکتا تھا اور وہ بادشاہ حریفوں کو زندہ رکھنے کا قائل تھا۔

میرے بڑو ابن انشا نے عالمگیر کے بارے میں یہ لکھ کر کہ اس نے ساری زندگی کوئی جمعہ اور کوئی بھائی نہ چھوڑا، اس کی عالمگیریت کو گھٹانے کی ناکام کوشش کی ہے. بھلا یہ بھی کوئ بات ہوئ کہ اپنی تاریخ کا مذاق اڑایا جاۓ۔ ویسے بھی ہمارے بادشاہ نے سب بھائی پولیس مقابلوں میں مرواۓ تھے کہ بعد میں کوئ ابنِ انشاء بھد نہ اڑاۓ۔ ہمارے بادشاہ کا ماننا تھا کہ ایمان دل میں ہوتا ہے اور وہ بین المذاہب رواداری کا پرجوش مبلغ تھا سو اکثر ناشتہ علماء کے کسی گروہ کے ساتھ حلوے مانڈوں کا ہوتا۔ دوپہر کو واۓ ایم سی اے کے ظہرانے سے نکل کر اقلیتی کوٹے کا مشروب نوشِ جاں کرتا اور رات کو پروٹوکول سمیت کسی مندر میں ماتھا ٹیکتا پایا جاتا

عوام بادشاہ سے والہانہ عقیدت رکھتے تھے اس کے آرام کا اسقدر خیال تھا کہ جس طرف سے اسے گزرنا ہوتا پہروں اس سڑک سے نہ گزرتے۔ اس کا محرک صرف یہ تھا کہ کہیں شاہی کارواں کی خاک پہ پیر پڑ کے انجانے میں بے ادبی نہ ہو جاۓ۔ بادشاہ کو بھی عوام کا اسقدر خیال تھا کہ رات کا پیشتر حصہ راگ و رنگ کی محفل میں بیٹھا عوام کے بارے میں سوچتا رہتا۔ عوام کے لیے اس کی محبت مسلمہ تھی۔ عوام کو صراطِ مستقیم پہ رکھنے اور نیک بنانے کے لیے قوانین انتہائ سخت بناۓ گۓ تھے۔ مزدور ٹیکس دیے بغیر ایک تنکا بھی گھر نہ لیجا سکتا۔ پولیس عوام کو عبرت دلانے کے لئے کسی کو بھی مقابلے میں مار ڈالتی کہ عبرت کی عبرت رہے اور عوام بھی شہادت کے درجے سے مستفیذ ہو سکے۔ ہاں مجرموں سے ہمارے بادشاہ کو نفرت تھی سو انہیں جی بھر کے دوزخ کمانے کا موقع دیا جاتا۔ایک بار بادشاہ کو اطلاع ملی کہ کچھ نام نہاد مسلمان رمضان کا مذاق اڑاتے ہوۓ سرِ عام کھا پی رہے ہیں۔ رحمدل بادشاہ نے ان جہنمیوں کو خدا کی لاٹھی کے لیے چھوڑ دیا مگر مزید لوگوں کو گمراہ ہونے سے بچانے کے لیے ہر چیز کی قیمت میں ایک ہزار فیصد اضافے کا حکم صادر کر دیا تا کہ گناہ کے مواقع ہی نہ بچیں۔ ایک بار بادشاہ نے اخبار میں پڑھا کے کچھ لوگ سینما کے لیے بجلی چوری کرتے پکڑے گۓ۔ بادشاہ نے اسی وقت پورے ملک میں ایک ہفتہ کی لوڈشیڈنگ کا اعلان کر دیا۔ بادشاہ نے یہ بھی کہا کہ جو لوگ بجلی کی بندش کی وجہ سے وفات پا جائیں انہیں شہید کا درجہ دینے کی قرارداد قومی اسمبلی سے پاس کروا کر اللہ میاں کو پیش کی جاۓ۔

میرے بڑو، ہر عروج کو زوال ہے۔ سو رفتہ رفتہ ہمارے بادشاہ کا جی بھی امورِ سلطنت سے اکتا گیا۔ درویشی غلبہ پانے لگی اور وہ اس انتظار میں رہنے لگا کہ کوئی جانشیں ملے اور وہ اسے سب کچھ سونپ کر اپنے فرائض سے سبکدوش ہو سکے۔ چونکہ بادشاہ کا دھیان امورِ سلطنت سے ہٹ چکا تھا سو عوام کو روزمرہ استمعال کی اشیاء میسر آنے لگیں۔ مشیرانِ کرام نے جب یہ دیکھا کہ عوام نیکی کی راہ سے ہٹ کر دنیا داری کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ انہوں نے عوام کی فلاح کی کی خاطر کہیں سے ہما نۓ بادشاہ سمیت برآمد کیا اور ہمارے بادشاہ کے حضور پیش کیا۔
بادشاہ نے مشیران کے منہ موتیوں سے بھر دئے اور نۓ بادشاہ کو گلے سے لگاتے ہوۓ بولا
یہ گھر جو میرا تھا تیرا نہیں تھا
یہ گھر اب تیرا ہے میرا نہیں ہے
اس کے بعد بادشاہ نے ایک لمبی تقریر کے آخر میں نۓ بادشاہ کا ٹوسٹ تجویز کیا اور اسے عوام کی محبت جیتنے کے چیدہ چیدہ گر بتاۓ۔ اگلے دن ہمارے بادشاہ نے اسباب باندھا اور یورپ کی راہ لی کہ باقی عمر یادِ الٰہی میں بسر کی جا سکے